سر اٹھا کے مت چلئے آج کے زمانے میں
جان جاتی رہتی ہے حوصلہ دکھانے میں
کس سے حق طلب کیجے بے وفا زمانے میں
ہونٹھ سوکھ جاتے ہیں حال دل سنانے میں
ہاتھ کی لکیروں سے فیصلے نہیں ہوتے
عزم کا بھی حصہ ہے زندگی بنانے میں
کھو گئے کہاں میرے اعتبار کے رشتے
کس نے بو دیئے کانٹے پھول سے گھرانے میں
منزلوں کی باتیں تو خواب جیسی باتیں ہیں
عمر بیت جاتی ہے راستہ بنانے میں
اے بشرؔ مری آنکھیں جگنوؤں کی عادی تھیں
کس نے بجلیاں رکھ دیں میرے آشیانے میں
غزل
سر اٹھا کے مت چلئے آج کے زمانے میں
چرن سنگھ بشر