EN हिंदी
سر اٹھا کر نہ کبھی دیکھا کہاں بیٹھے تھے | شیح شیری
sar uTha kar na kabhi dekha kahan baiThe the

غزل

سر اٹھا کر نہ کبھی دیکھا کہاں بیٹھے تھے

حسن کمال

;

سر اٹھا کر نہ کبھی دیکھا کہاں بیٹھے تھے
گرتی دیوار کا سایہ تھا جہاں بیٹھے تھے

سب تھے مصروف اندھیروں کی خریداری میں
ہم سجائے ہوئے شمعوں کی دکاں بیٹھے تھے

یہی شہرت کا سبب ہوں گے یہ معلوم نہ تھا
ہم چھپائے ہوئے زخموں کے نشاں بیٹھے تھے

لوگ تو بجھتے چراغوں کے دھوئیں سے خوش تھے
ہم ہی بے کار جلائے ہوئے جاں بیٹھے تھے

مے کدہ اور بھی تنہائی کا ساماں نکلا
ہم کہ تنہائی سے تنگ آ کے یہاں بیٹھے تھے