سر اٹھا کر نہ کبھی دیکھا کہاں بیٹھے تھے
گرتی دیوار کا سایہ تھا جہاں بیٹھے تھے
سب تھے مصروف اندھیروں کی خریداری میں
ہم سجائے ہوئے شمعوں کی دکاں بیٹھے تھے
یہی شہرت کا سبب ہوں گے یہ معلوم نہ تھا
ہم چھپائے ہوئے زخموں کے نشاں بیٹھے تھے
لوگ تو بجھتے چراغوں کے دھوئیں سے خوش تھے
ہم ہی بے کار جلائے ہوئے جاں بیٹھے تھے
مے کدہ اور بھی تنہائی کا ساماں نکلا
ہم کہ تنہائی سے تنگ آ کے یہاں بیٹھے تھے

غزل
سر اٹھا کر نہ کبھی دیکھا کہاں بیٹھے تھے
حسن کمال