EN हिंदी
سر پر مرے عمر بھر رہی دھوپ | شیح شیری
sar par mere umr-bhar rahi dhup

غزل

سر پر مرے عمر بھر رہی دھوپ

اظہر سعید

;

سر پر مرے عمر بھر رہی دھوپ
جس سمت چلا ادھر چلی دھوپ

کم ایسی وطن میں بھی نہ تھی دھوپ
غربت میں بلائے جاں بنی دھوپ

ماں ہے نہ یہاں شجر ہے کوئی
تا حد نگاہ دھوپ ہی دھوپ

برسوں سے لٹک رہی ہے سر پر
خنجر کی طرح کھنچی ہوئی دھوپ

یادوں کے نہاں کدے میں چمکی
تتلی کے پروں پہ ناچتی دھوپ

اک روپ کے نام ان گنت ہیں
بجلی برسات چاندنی دھوپ

قائم رہیں تیرے زلف و عارض
سایہ میرا یہی یہی دھوپ