سر پر مرے عمر بھر رہی دھوپ
جس سمت چلا ادھر چلی دھوپ
کم ایسی وطن میں بھی نہ تھی دھوپ
غربت میں بلائے جاں بنی دھوپ
ماں ہے نہ یہاں شجر ہے کوئی
تا حد نگاہ دھوپ ہی دھوپ
برسوں سے لٹک رہی ہے سر پر
خنجر کی طرح کھنچی ہوئی دھوپ
یادوں کے نہاں کدے میں چمکی
تتلی کے پروں پہ ناچتی دھوپ
اک روپ کے نام ان گنت ہیں
بجلی برسات چاندنی دھوپ
قائم رہیں تیرے زلف و عارض
سایہ میرا یہی یہی دھوپ

غزل
سر پر مرے عمر بھر رہی دھوپ
اظہر سعید