سر کیا زلف کی شب کو تو سحر تک پہنچے
ورنہ ہم لوگ کہاں حسن نظر تک پہنچے
آج پلکوں پہ مری جشن چراغاں ہوگا
کتنے انمول گہر دیدۂ تر تک پہنچے
میری راتوں کا اندھیرا بھی دعائیں دے گا
اک ستارہ جو اتر کر مرے گھر تک پہنچے
کون کہتا ہے کہ خورشید اتر کر آئے
ایک جگنو ہی مگر خاک بسر تک پہنچے
جو بھی آئے ترے کوچے میں وہ جاں سے گزرے
سر ہتھیلی پہ اٹھائے ترے در تک پہنچے
ہے اسی صاحب معراج کا احسان کہ ہم
خاک ہو کر بھی مگر شمس و قمر تک پہنچے
میں اندھیروں کا مسافر ہوں اجالوں کا نقیب
کس کی جرأت ہے مری گرد سفر تک پہنچے
انگلیاں پہلے قلم کرنا پڑیں گی بابرؔ
پھر یہ ممکن ہے قلم حرف ہنر تک پہنچے

غزل
سر کیا زلف کی شب کو تو سحر تک پہنچے
غفار بابر