سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
تسکیں کو دے نوید کہ مرنے کی آس ہے
لیتا نہیں مرے دل آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے
کیجیے بیاں سرور تپ غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبان سپاس ہے
ہے وہ غرور حسن سے بیگانۂ وفا
ہرچند اس کے پاس دل حق شناس ہے
پی جس قدر ملے شب مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
کیا غم ہے اس کو جس کا علیؔ سا امام ہو
اتنا بھی اے فلک زدہ کیوں بد حواس ہے
غزل
سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
مرزا غالب