سر نیاز جھکانا کوئی مذاق نہیں
انائے قلب مٹانا کوئی مذاق نہیں
لبوں پے آہ بہ ہر حال آ ہی جاتی ہے
جگر کی چوٹ چھپانا کوئی مذاق نہیں
نقوش قلب مٹانے سے مٹ نہیں سکتے
کسی کو دل سے بھلانا کوئی مذاق نہیں
ہنسی ہنسی میں بھی کیا کیا گریز پائی ہے
تراشتے ہیں بہانہ کوئی مذاق نہیں
جہاں ادب میں سیاست چلی جاتی ہے
وہاں بھی رنگ جمانا کوئی مذاق نہیں
نکالتے ہو زمینیں نئی نئی لیکن
ردیف کا بھی نبھانا کوئی مذاق نہیں
جو اہل علم ہیں کانٹے ہیں ان کی راہوں میں
اب ان کو تاجؔ ہٹنا کوئی مذاق نہیں

غزل
سر نیاز جھکانا کوئی مذاق نہیں
ریاست علی تاج