سر دربار خاموشی تہہ دربار خوشیاں ہیں
در و دیوار کی باتیں در و دیوار خوشیاں ہیں
تجھے تکنا تجھے سننا ترا ہنسنا مچل جانا
ہمارے غم کے آنگن میں فقط دو چار خوشیاں ہیں
کئی ہیں داستانیں دفن یاں یاروں کے سینے میں
کہیں پر غم ہے خوشیوں میں کہیں غم خوار خوشیاں ہیں
امیر شہر کیا جانے جو گزری ہے غریبوں پر
یہاں پر غم کے پھیرے ہیں وہاں ہر بار خوشیاں ہیں
نہ جب تک ہم سمجھ پائیں ہمارا مقصد تخلیق
جہاں میں جو میسر ہوں سبھی بیکار خوشیاں ہیں
بڑی محنت سے لکھی ہے سر قرطاس جو میں نے
کہانی میں جو رکھے ہیں سبھی کردار خوشیاں ہیں
جو مجھ پہ شرط ہو احمد میں پوری کر دکھاؤں گا
سر انکار گمنامی پس اقرار خوشیاں ہیں

غزل
سر دربار خاموشی تہہ دربار خوشیاں ہیں
حسان احمد اعوان