EN हिंदी
سناٹا چھا گیا ہے شب غم کی چاپ پر | شیح شیری
sannaTa chha gaya hai shab-e-gham ki chap par

غزل

سناٹا چھا گیا ہے شب غم کی چاپ پر

رفیق خیال

;

سناٹا چھا گیا ہے شب غم کی چاپ پر
سورج کو تھا یقین بہت اپنے آپ پر

وہ صاعقہ مزاج ہے میں سرد برف سا
حیرت زدہ ہیں لوگ تمام اس ملاپ پر

میں ہوں فسردہ شام کی افسردگی ہے اور
دھندلا سا عکس یار ہے یادوں کی بھاپ پر

میں منزلوں کی جستجو میں تھا برنگ موج
اب رقص کر رہا ہوں محبت کی تھاپ پر

لازم یہ پیش خیمۂ آفات ہے خیالؔ
بے جا جمع نہیں ہیں پرندے الاپ پر