EN हिंदी
سنگ زنوں کے واسطے پھر نئے راستوں میں ہے | شیح شیری
sang-zanon ke waste phir nae raston mein hai

غزل

سنگ زنوں کے واسطے پھر نئے راستوں میں ہے

شاہدہ تبسم

;

سنگ زنوں کے واسطے پھر نئے راستوں میں ہے
وحشت جاں کا مسئلہ شیشے کے جنگلوں میں ہے

اتری تھیں دشت پر کبھی برگ و ثمر وہ آہٹیں
قحط صدائے دوستاں پھر سے سماعتوں میں ہے

جن میں نہاں رہا کبھی نکہت و گل کی قربتیں
حد زمین و آسماں اب انہی رابطوں میں ہے

کسی نے زمیں کے جسم سے فصل وصال چھین لی
عرصۂ حشر سا بپا روح کی کھیتیوں میں ہے

دل سے لہو کے شور تک زخم کا سلسلہ رواں
شورش بحر بے کراں آج سے پھر رگوں میں ہے

عالم بے حجابیٔ جاں کا سماں کچھ اور تھا
ہر بن مو کا حرف دل یوں تو کھلا لبوں میں ہے

تارے سے سمت بھی الگ ناؤ سے راہ بھی جدا
رمز مسافرت چھپا چپ کے سمندروں میں ہے