سنگ مجنوں پہ لڑکپن میں اٹھایا کیوں تھا
یاد غالب کی طرح سر مجھے آیا کیوں تھا
بات اب یہ نہیں کیوں چھوڑا تھا اس نے مجھ کو
بات تو یہ ہے کہ وہ لوٹ کے آیا کیوں تھا
کتنے معصوم صفت لوگ تھے سمجھے ہی نہیں
اس نے پر توڑ کے تتلی کو اڑایا کیوں تھا
جس کے ہاتھوں میں نظر آتے تھے پتھر کل تک
اس نے ہی میری طرف پھول بڑھایا کیوں تھا
اب وہ اپنے کو خدا سمجھے تو غلطی کیا ہے
من کے مندر میں اسے تم نے بسایا کیوں تھا
غزل
سنگ مجنوں پہ لڑکپن میں اٹھایا کیوں تھا
شکیل شمسی