EN हिंदी
سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں | شیح شیری
sang-e-jafa ka gham nahin dast-e-talab ka Dar nahin

غزل

سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں

نظم طبا طبائی

;

سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں
اپنا ہے اس پر آشیاں نخل جو بارور نہیں

سنتے ہو اہل قافلہ میں کوئی راہ بر نہیں
دیکھ رہا ہوں تم میں سے ایک بھی راہ پر نہیں

موت کا گھر ہے آسماں اس سے کہیں مفر نہیں
نکلیں تو کوئی در نہیں بھاگیں تو رہ گزر نہیں

پہلے جگر پر آہ کا نام نہ تھا نشاں نہ تھا
آخر کار یہ ہوا آہ تو ہے جگر نہیں

صبح ازل سے تا ابد قصہ نہ ہوگا یہ تمام
جور فلک کی داستاں ایسی بھی مختصر نہیں

برگ خزاں رسیدہ ہوں چھیڑ نہ مجھ کو اے نسیم
ذوق فغاں کا ہے مجھے شکوۂ ابر تر نہیں

منکر حشر ہے کدھر دیکھے تو آنکھ کھول کر
حشر کی جو خبر نہ دے ایسی کوئی سحر نہیں

شبنم و گل کو دیکھ کر وجد نہ آئے کس طرح
خندہ بے سبب نہیں گریہ بے اثر نہیں

تیرے فقیر کا غرور تاجوروں سے ہے سوا
طرف کلہ میں دے شکن اس کو یہ درد سر نہیں

کوشک و قصر و بام و در تو نے بنا کئے تو کیا
حیف ہے خانماں خراب دل میں کسی کے گھیر نہیں

نالہ کشی رقیب سے میری طرح محال ہے
دل نہیں حوصلہ نہیں زہرہ نہیں جگر نہیں

شاطر پیر آسماں واہ ری تیری دست برد
خسرو و کیقباد کی تیغ نہیں کمر نہیں

شان کریم کی یہ ہے ہاں سے ہو پیشتر عطا
لطف عطا کا کیا ہو جب ہاں سے ہو پیشتر نہیں

لاکھ وہ بے رخی کرے لاکھ وہ کج روی کرے
کچھ تو ملال اس کا ہو دل کو مرے مگر نہیں

سن کے برا نہ مانئے سچ کو نہ جھوٹ جانئے
ذکر ہے کچھ گلہ نہیں بات ہے نیشتر نہیں