صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں
یہ زندان دغا ہے اور میں ہوں
یہی کہتا ہے جلوہ میرے بت کا
کہ اک ذات خدا ہے اور میں ہوں
ادھر آنے میں ہے کس سے تجھے شرم
فقط اک غم ترا ہے اور میں ہوں
کرے جو ہر قدم پر ایک نالہ
زمانے میں درا ہے اور میں ہوں
تری دیوار سے آتی ہے آواز
کہ اک بال ہما ہے اور میں ہوں
نہ ہو کچھ آرزو مجھ کو خدایا
یہی ہر دم دعا ہے اور میں ہوں
کیا درباں نے سنگ آستانہ
در دولت سرا ہے اور میں ہوں
گیا وہ چھوڑ کر رستے میں مجھ کو
اب اس کا نقش پا ہے اور میں ہوں
زمانے کے ستم سے روز ناسخؔ
نئی اک کربلا ہے اور میں ہوں
غزل
صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں
امام بخش ناسخ