صنم کے صنم تھے پتھر ہماری تاب نظر سے پہلے
جبیں میں سجدے تڑپ رہے تھے نہ جانے کیوں سنگ در سے پہلے
تو راہزن تو نہیں ہے پوچھوں میں کس طرح ہم سفر سے پہلے
سوال ایسا کیا نہیں ہے کسی نے بھی راہبر سے پہلے
عجیب راہ عدم ہے پر ختم ہر ایک راہی کو ہے یہی غم
یہ راز کھلتا نہیں کسی پر جہاں میں عزم سفر سے پہلے
یہ تیر ایسا لگا ہے دل پر کہ دل مزہ اس کا جانتا ہے
میں لذت غم سے بے خبر تھا تمہاری ترچھی نظر سے پہلے
یہ آرزو ہے رہے وہ قائم کہ چارہ سازی کا اب نہیں غم
خلش جو محسوس کر رہا تھا جگر میں درد جگر سے پہلے
یہ آدمی ہی بنائے شر ہے جو اپنی ہستی سے بے خبر ہے
گناہ کا نام تک کہاں تھا وجود نوع بشر سے پہلے
میں ظلمتوں میں بھی دیکھتا تھا سیاہ بختی کا اپنی عالم
مری نظر معتبر کہاں تھی ورود شمس و قمر سے پہلے
غزل
صنم کے صنم تھے پتھر ہماری تاب نظر سے پہلے
شوق بجنوری