صنم کے کوچے میں چھپ کے جانا اگرچہ یوں ہے خیال دل کا
پہ وہ تو جاتے ہی تاڑ لے گا پھر آنا ہوگا محال دل کا
گہر نے اشکوں کے یاں نکل کر جھمک دکھائی جو اپنی ہر دم
تو ہم نے جانا کہ موتیوں سے بھرا ہے پہلو میں قال دل کا
کبھی اشارت کبھی لگاوٹ کبھی تبسم کبھی تکلم
یہ طرزیں ٹھہریں تو ہم سے پھر ہو بھلا جی کیوں کر سنبھال دل کا
وہ زلف پر پیچ و خم ہے اس کی پھنسا تو نکلے گا پھر نہ ہرگز
ہمارا کہنا ہے سچ ارے جی تو کام اس سے نہ ڈال دل کا
میں لحظہ لحظہ ہوں کھینچ لاتا وہ پھر اسی کی طرف ہے جاتا
کروں نظیرؔ اس کی فکر میں کیا ہے اب تو میرے یہ حال دل کا
غزل
صنم کے کوچے میں چھپ کے جانا اگرچہ یوں ہے خیال دل کا
نظیر اکبرآبادی