سمندروں میں سراب اور خشکیوں میں گرداب دیکھتا ہے
وہ جاگتے اور راہ چلتے عجب عجب خواب دیکھتا ہے
کبھی تو رشتوں کو خون کے بھی فریب وہم و گمان سمجھا
کبھی وہ نرغے میں دشمنوں کے ہجوم احباب دیکھتا ہے
شناوری راس آئے ایسی سمندروں میں ہی گھر بنا لے
کبھی تلاش گہر میں اپنے تئیں وہ غرقاب دیکھتا ہے
کبھی تقدس طواف کا سا کرے ہے طاری وہ جسم و جاں پر
سروں پہ گرتا ہوا کبھی لعنتوں کا میزاب دیکھتا ہے

غزل
سمندروں میں سراب اور خشکیوں میں گرداب دیکھتا ہے
سراج اجملی