EN हिंदी
سمندروں میں سراب اور خشکیوں میں گرداب دیکھتا ہے | شیح شیری
samundaron mein sarab aur KHushkiyon mein girdab dekhta hai

غزل

سمندروں میں سراب اور خشکیوں میں گرداب دیکھتا ہے

سراج اجملی

;

سمندروں میں سراب اور خشکیوں میں گرداب دیکھتا ہے
وہ جاگتے اور راہ چلتے عجب عجب خواب دیکھتا ہے

کبھی تو رشتوں کو خون کے بھی فریب وہم و گمان سمجھا
کبھی وہ نرغے میں دشمنوں کے ہجوم احباب دیکھتا ہے

شناوری راس آئے ایسی سمندروں میں ہی گھر بنا لے
کبھی تلاش گہر میں اپنے تئیں وہ غرقاب دیکھتا ہے

کبھی تقدس طواف کا سا کرے ہے طاری وہ جسم و جاں پر
سروں پہ گرتا ہوا کبھی لعنتوں کا میزاب دیکھتا ہے