سمندروں کو اٹھائے پھری گھٹا برسوں
مگر میں پیاس نہ اپنی بچھا سکا برسوں
بس اتنا یاد ہے تجھ سے ملا تھا رستے میں
پھر اپنے آپ سے رہنا پڑا جدا برسوں
میں ایک عمر بھٹکتا رہا ہوں صحرا میں
کہ میری خاک اڑاتی رہی ہوا برسوں
ہمی نے دامن شب کو نہ ہاتھ سے چھوڑا
سحر کے گیت سناتی رہی صبا برسوں
نسیم شاخ گل تر سے کیوں الجھتی ہے
چمن میں پھول اگر پھر نہ کھل سکا برسوں
تمہی نے راہ وفا پر قدم رکھا نہ کبھی
چراغ بن کے میں ہر موڑ پر جلا برسوں
کرن کرن مجھے پرواز کی نوید ہے آج
رہا ہوں تیری فضاؤں میں پر کشا برسوں
غزل
سمندروں کو اٹھائے پھری گھٹا برسوں
الطاف پرواز