سمندروں کو بھی دریا سمجھ رہے ہیں ہم
یہ اپنے آپ کو اب کیا سمجھ رہے ہیں ہم
ہماری راہ میں حائل جو اک اندھیرا ہے
اسے بھی اپنا ہی سایہ سمجھ رہے ہیں ہم
یہیں تلک ہے رسائی ہماری آنکھوں کی
کہ خد و خال کو چہرہ سمجھ رہے ہیں ہم
ہماری بات کسی کی سمجھ میں کیوں آتی
خود اپنی بات کو کتنا سمجھ رہے ہیں ہم
اب اپنے درد کو سہنا بہت ہی مشکل ہے
ذرا ہے زخم کو گہرا سمجھ رہے ہیں ہم
ابھی فضول ہے منزل کی بات بھی کرنا
ابھی تو لوگوں سے رستا سمجھ رہے ہیں ہم
بس ایک رات ٹھہرنے کا یہ نتیجہ ہے
سرائے فانی کو دنیا سمجھ رہے ہیں ہم
غزل
سمندروں کو بھی دریا سمجھ رہے ہیں ہم
بھارت بھوشن پنت