EN हिंदी
سمندر پر سکوں ہے دل کا طغیانی نہیں کوئی | شیح شیری
samundar pur-sukun hai dil ka tughyani nahin koi

غزل

سمندر پر سکوں ہے دل کا طغیانی نہیں کوئی

نکہت بریلوی

;

سمندر پر سکوں ہے دل کا طغیانی نہیں کوئی
ہوا پر شور ہے لیکن پریشانی نہیں کوئی

تعجب ہے تو بس اپنی وفاداری کے جذبے پر
ہمیں اس کے بدل جانے پہ حیرانی نہیں کوئی

تسلسل خواب خوش آثار کا یوں ٹوٹ جانے پر
تأسف ہے مگر اے دل پشیمانی نہیں کوئی

ہم اپنے آپ ہی کے در پئے آزار رہتے ہیں
ہمارا ہم سے بڑھ کر دشمن جانی نہیں کوئی

ادھر آنے سے پہلے ہی ہمیں معلوم تھا نکہتؔ
یہ وہ رستہ ہے جس رستے میں آسانی نہیں کوئی