سمندر میں کھڑے ہو رو رہے ہو
یہ کیسی میلی چادر دھو رہے ہو
یہ دنیا مسئلہ اللہ کا ہے
یہ مٹی سر پہ تم کیوں ڈھو رہے ہو
ہمارے آنسوؤں کے جگنوؤں سے
ستارو کیوں پریشاں ہو رہے ہو
سمندر کو دکھا کر آگ اب کیوں
دعا کی بارشوں کو رو رہے ہو
جہاں پرکھوں کے سجدوں کے نشاں ہیں
وہ گلیاں خون سے کیوں دھو رہے ہو
سنا ہوگا ہمارا حادثہ بھی
ہمارے شہر میں تم تو رہے ہو
نہیں گر جان جاں تو دشمن جاں
ہماری جان کے کچھ تو رہے ہو
تمہیں تو خوب ہنسنا چاہیئے اشکؔ
ہمارے حال پر تم رو رہے ہو
غزل
سمندر میں کھڑے ہو رو رہے ہو
پروین کمار اشک