سمندر کے کنارے اک سمندر آدمیوں کا
ہمارے شہر میں رہتا ہے لشکر آدمیوں کا
وہی سینہ فگاری ہے وہی بے اعتباری ہے
بدلتا ہی نہیں ہے یاں مقدر آدمیوں کا
زمیں سے آسماں تک چھا رہی ہے خون کی سرخی
چھپا ہے خیر کے پردے میں بھی شر آدمیوں کا
قیامت سے بہت پہلے قیامت کیوں نہ ہو برپا
جھکا ہے آدمی کے سامنے سر آدمیوں کا
فقط چہرے ہی اب گرد کدورت سے نہیں دھندلے
دلوں کا آئنہ بھی ہے مکدر آدمیوں کا
زمیں یونہی رہی گر بے گناہوں کے لہو سے تر
ہوا ہو جائے گا اک دن سمندر آدمیوں کا

غزل
سمندر کے کنارے اک سمندر آدمیوں کا
اقبال حیدر