EN हिंदी
سمندر کے کنارے اک سمندر آدمیوں کا | شیح شیری
samundar ke kinare ek samundar aadamiyon ka

غزل

سمندر کے کنارے اک سمندر آدمیوں کا

اقبال حیدر

;

سمندر کے کنارے اک سمندر آدمیوں کا
ہمارے شہر میں رہتا ہے لشکر آدمیوں کا

وہی سینہ فگاری ہے وہی بے اعتباری ہے
بدلتا ہی نہیں ہے یاں مقدر آدمیوں کا

زمیں سے آسماں تک چھا رہی ہے خون کی سرخی
چھپا ہے خیر کے پردے میں بھی شر آدمیوں کا

قیامت سے بہت پہلے قیامت کیوں نہ ہو برپا
جھکا ہے آدمی کے سامنے سر آدمیوں کا

فقط چہرے ہی اب گرد کدورت سے نہیں دھندلے
دلوں کا آئنہ بھی ہے مکدر آدمیوں کا

زمیں یونہی رہی گر بے گناہوں کے لہو سے تر
ہوا ہو جائے گا اک دن سمندر آدمیوں کا