EN हिंदी
سمجھے ہے مفہوم نظر کا دل کا اشارہ جانے ہے | شیح شیری
samjhe hai mafhum nazar ka dil ka ishaara jaane hai

غزل

سمجھے ہے مفہوم نظر کا دل کا اشارہ جانے ہے

شمیم کرہانی

;

سمجھے ہے مفہوم نظر کا دل کا اشارہ جانے ہے
ہم تم چپ ہیں لیکن دنیا حال ہمارا جانے ہے

ہلکی ہوا کے اک جھونکے میں کیسے کیسے پھول گرے
گلشن کے گل پوش نہ جانیں گلشن سارا جانے ہے

شمع تمنا پچھلے پہر تک درد کا آنسو بن ہی گئی
شام کا تارا کیسے ڈوبا صبح کا تارا جانے ہے

کیا کیا ہیں آئین تماشا کیا کیا ہیں آداب نظر
چشم ہوس یہ سب کیا جانے وہ تو نظارہ جانے ہے

اپنے شمیمؔ رسوا کو تم جانو ہو انجان کوئی
بستی ساری پہچانے ہے صحرا سارا جانے ہے