سنبھل کے رہیے گا غصہ میں چل رہی ہے ہوا
مزاج گرم ہے موسم بدل رہی ہے ہوا
وہ جام برف سے لبریز ہے مگر اس سے
لپٹ لپٹ کے مسلسل پگھل رہی ہے ہوا
ادھر تو دھوپ ہے بندش میں اور چھتوں پہ ادھر
لباس برف کا پہنے ٹہل رہی ہے ہوا
بجھا رہی ہے چراغوں کو وقت سے پہلے
نہ جانے کس کے اشاروں پہ چل رہی ہے ہوا
جو دل پہ ہاتھ رکھوگے تو جان جاؤ گے
مچل رہی ہے برابر مچل رہی ہے ہوا
میں کہہ رہا ہوں ہوا ہے تو جل رہے ہیں چراغ
وہ کہہ رہے ہیں چراغوں سے جل رہی ہے ہوا

غزل
سنبھل کے رہیے گا غصہ میں چل رہی ہے ہوا
گووند گلشن