سمجھتے کیا ہیں ان دو چار رنگوں کو ادھر والے
ترنگ آئی تو منظر ہی بدل دیں گے نظر والے
اسی پر خوش ہیں کہ اک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں
ابھی تنہائی کا مطلب نہیں سمجھے ہیں گھر والے
ستم کے وار ہیں تو کیا قلم کے دھار بھی تو ہیں
گزارہ خوب کر لیتے ہیں عزت سے ہنر والے
کوئی صورت نکلتی ہی نہیں ہے بات ہونے کی
وہاں زعم خدا وندی یہاں جذبے بشر والے
مفاعیلن کا پیمانہ بہت ہی تنگ ہوتا ہے
جبھی تو شعر ہم کہتے نہیں ہیں دل جگر والے
گھروں میں تھے تو وسعت دشت کی ہم کو بلاتی تھی
مگر اب دشت میں آئے تو یاد آتے ہیں گھر والے
جو مستقبل سے پر امید ہو وہ شاعر مطلق
شجاعؔ خاور سے اپنی فکر کی اصلاح کروا لے
غزل
سمجھتے کیا ہیں ان دو چار رنگوں کو ادھر والے
شجاع خاور