سمجھتے ہیں جو اپنے باپ کی جاگیر مٹی کو
بناؤں گا میں ان کے پاؤں کی زنجیر مٹی کو
ہوا سطح زمیں پر اب خط گل زار کھینچے گی
کہ خوش آتی نہیں ہے ابر کی تحریر مٹی کو
سیہ پڑ جائے گی ذروں کی رنگت ایک ہی پل میں
اگر قسمت سے مل جائے مری تقدیر مٹی کو
جلالی آئنہ اک آسماں پر مہر تاباں ہے
بنایا ہے زمیں پر صبر کی تصویر مٹی کو
بجائے خاک اڑتے ہیں ستارے میری آنکھوں میں
کہ ہو جاتی ہے ایسے کام میں تاخیر مٹی کو
اسے مسمار کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی
پسند آئی ہے شہر خواب کی تعمیر مٹی کو
بہت روندا گیا ہے خاک کو اور خاک زادوں کو
عطا کی جائے گی اب غیب سے توقیر مٹی کو
کمال اپنا دکھائے گا طلسمی آئنہ ساجدؔ
کہ اب درکار ہے اک خواب کی تعبیر مٹی کو

غزل
سمجھتے ہیں جو اپنے باپ کی جاگیر مٹی کو
غلام حسین ساجد