EN हिंदी
سمجھتے ہیں جو اپنے باپ کی جاگیر مٹی کو | شیح شیری
samajhte hain jo apne bap ki jagir miTTi ko

غزل

سمجھتے ہیں جو اپنے باپ کی جاگیر مٹی کو

غلام حسین ساجد

;

سمجھتے ہیں جو اپنے باپ کی جاگیر مٹی کو
بناؤں گا میں ان کے پاؤں کی زنجیر مٹی کو

ہوا سطح زمیں پر اب خط گل زار کھینچے گی
کہ خوش آتی نہیں ہے ابر کی تحریر مٹی کو

سیہ پڑ جائے گی ذروں کی رنگت ایک ہی پل میں
اگر قسمت سے مل جائے مری تقدیر مٹی کو

جلالی آئنہ اک آسماں پر مہر تاباں ہے
بنایا ہے زمیں پر صبر کی تصویر مٹی کو

بجائے خاک اڑتے ہیں ستارے میری آنکھوں میں
کہ ہو جاتی ہے ایسے کام میں تاخیر مٹی کو

اسے مسمار کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی
پسند آئی ہے شہر خواب کی تعمیر مٹی کو

بہت روندا گیا ہے خاک کو اور خاک زادوں کو
عطا کی جائے گی اب غیب سے توقیر مٹی کو

کمال اپنا دکھائے گا طلسمی آئنہ ساجدؔ
کہ اب درکار ہے اک خواب کی تعبیر مٹی کو