EN हिंदी
سمجھتا ہوں کہ تو مجھ سے جدا ہے | شیح شیری
samajhta hun ki tu mujhse juda hai

غزل

سمجھتا ہوں کہ تو مجھ سے جدا ہے

فراق گورکھپوری

;

سمجھتا ہوں کہ تو مجھ سے جدا ہے
شب فرقت مجھے کیا ہو گیا ہے

ترا غم کیا ہے بس یہ جانتا ہوں
کہ میری زندگی مجھ سے خفا ہے

کبھی خوش کر گئی مجھ کو تری یاد
کبھی آنکھوں میں آنسو آ گیا ہے

حجابوں کو سمجھ بیٹھا میں جلوہ
نگاہوں کو بڑا دھوکا ہوا ہے

بہت دور اب ہے دل سے یاد تیری
محبت کا زمانہ آ رہا ہے

نہ جی خوش کر سکا تیرا کرم بھی
محبت کو بڑا دھوکا رہا ہے

کبھی تڑپا گیا ہے دل ترا غم
کبھی دل کو سہارا دے گیا ہے

شکایت تیری دل سے کرتے کرتے
اچانک پیار تجھ پر آ گیا ہے

جسے چونکا کے تو نے پھیر لی آنکھ
وہ تیرا درد اب تک جاگتا ہے

جہاں ہے موجزن رنگینیٔ حسن
وہیں دل کا کنول لہرا رہا ہے

گلابی ہوتی جاتی ہیں فضائیں
کوئی اس رنگ سے شرما رہا ہے

محبت تجھ سے تھی قبل از محبت
کچھ ایسا یاد مجھ کو آ رہا ہے

جدا آغاز سے انجام سے دور
محبت اک مسلسل ماجرا ہے

خدا حافظ مگر اب زندگی میں
فقط اپنا سہارا رہ گیا ہے

محبت میں فراقؔ اتنا نہ غم کر
زمانے میں یہی ہوتا رہا ہے