سمجھ رہے تھے جسے ہم کہ بے وفا ہوگا
کسے خبر تھی کہ وہ آدمی خدا ہوگا
تمہارے پہلے بھی آنکھوں میں انتظار ہی تھا
تمہارے بعد یہی ہوگا اور کیا ہوگا
ابھی بھی درد سا اٹھتا ہے مجھ میں ممکن ہے
ذرا سا عشق مری ذات میں بچا ہوگا
میں اک چراغ ہوا میں جلا کے لوٹ آیا
پھر اس کے بعد نہ جانے کہ کیا ہوا ہوگا
یہاں کی آب و ہوا میں عجب خموشی ہے
تمام شہر کسی دشت پر بسا ہوگا
وہی نظارے وہی لوگ چل یہاں سے چلیں
فصیل شہر کے باہر تو کچھ نیا ہوگا
غزل
سمجھ رہے تھے جسے ہم کہ بے وفا ہوگا
کلدیپ کمار