EN हिंदी
سمجھ رہے تھے جسے ہم کہ بے وفا ہوگا | شیح شیری
samajh rahe the jise hum ki bewafa hoga

غزل

سمجھ رہے تھے جسے ہم کہ بے وفا ہوگا

کلدیپ کمار

;

سمجھ رہے تھے جسے ہم کہ بے وفا ہوگا
کسے خبر تھی کہ وہ آدمی خدا ہوگا

تمہارے پہلے بھی آنکھوں میں انتظار ہی تھا
تمہارے بعد یہی ہوگا اور کیا ہوگا

ابھی بھی درد سا اٹھتا ہے مجھ میں ممکن ہے
ذرا سا عشق مری ذات میں بچا ہوگا

میں اک چراغ ہوا میں جلا کے لوٹ آیا
پھر اس کے بعد نہ جانے کہ کیا ہوا ہوگا

یہاں کی آب و ہوا میں عجب خموشی ہے
تمام شہر کسی دشت پر بسا ہوگا

وہی نظارے وہی لوگ چل یہاں سے چلیں
فصیل شہر کے باہر تو کچھ نیا ہوگا