EN हिंदी
سمجھ رہا تھا میں یہ دن گزرنے والا نہیں | شیح شیری
samajh raha tha main ye din guzarne wala nahin

غزل

سمجھ رہا تھا میں یہ دن گزرنے والا نہیں

فہیم شناس کاظمی

;

سمجھ رہا تھا میں یہ دن گزرنے والا نہیں
کھلا کہ کوئی بھی لمحہ ٹھہرنے والا نہیں

کوئی بھی رستہ کسی سمت کو نہیں جاتا
کوئی سفر مری تکمیل کرنے والا نہیں

ہوا کی ابر کی کوشش تو پوری پوری ہے
مگر دھویں کی طرح میں بکھرنے والا نہیں

میں اپنے آپ کو بس ایک بار دیکھوں گا
پھر اس کے بعد کسی سے بھی ڈرنے والا نہیں

چراغ جاں لیے کس دشت میں کھڑا ہوں میں
کوئی بھی قافلہ یاں سے گزرنے والا نہیں

میں کیا کروں کوئی تصویر گر ادھوری ہے
میں اپنے رنگ تو اب اس میں بھرنے والا نہیں