سمجھ رہا تھا میں یہ دن گزرنے والا نہیں
کھلا کہ کوئی بھی لمحہ ٹھہرنے والا نہیں
کوئی بھی رستہ کسی سمت کو نہیں جاتا
کوئی سفر مری تکمیل کرنے والا نہیں
ہوا کی ابر کی کوشش تو پوری پوری ہے
مگر دھویں کی طرح میں بکھرنے والا نہیں
میں اپنے آپ کو بس ایک بار دیکھوں گا
پھر اس کے بعد کسی سے بھی ڈرنے والا نہیں
چراغ جاں لیے کس دشت میں کھڑا ہوں میں
کوئی بھی قافلہ یاں سے گزرنے والا نہیں
میں کیا کروں کوئی تصویر گر ادھوری ہے
میں اپنے رنگ تو اب اس میں بھرنے والا نہیں
غزل
سمجھ رہا تھا میں یہ دن گزرنے والا نہیں
فہیم شناس کاظمی