EN हिंदी
سمجھ میں زندگی آئے کہاں سے | شیح شیری
samajh mein zindagi aae kahan se

غزل

سمجھ میں زندگی آئے کہاں سے

جون ایلیا

;

سمجھ میں زندگی آئے کہاں سے
پڑھی ہے یہ عبارت درمیاں سے

یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے
پرندے اڑ رہے ہیں شاخ جاں سے

مکان و لا مکاں کے بیچ کیا ہے
جدا جس سے مکاں ہے لا مکاں سے

دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں
ہوا سنتا ہوں میں پیڑوں کی زباں سے

تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش
ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے

زمانہ تھا وہ دل کی زندگی کا
تری فرقت کے دن لاؤں کہاں سے

فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھے فلاں کے