سمجھ میں اس کی مقام بشر نہیں آیا
جسے خود اپنے سوا کچھ نظر نہیں آیا
رہے گی پیاسی یہ دھرتی مرے خدا کب تک
رتیں گزر گئیں بادل ادھر نہیں آیا
ہزار چاند ستاروں کی سیر کر آئے
ہمیں زمین پہ چلنا مگر نہیں آیا
ضمیر بیچنا آساں سہی مگر یارو
خطا معاف ہمیں یہ ہنر نہیں آیا
بھلے تھے دن تو ہزاروں تھے گرد و پیش مرے
پڑا جو وقت تو کوئی نظر نہیں آیا
یہ سانحہ ہے مرے عہد کا کہ جب دیکھا
کوئی بھی شہر میں مخلص نظر نہیں آیا
ابھی سے کس لیے پتھراؤ کا سماں ہے شفیقؔ
ابھی تو پھل بھی کوئی پیڑ پر نظر نہیں آیا

غزل
سمجھ میں اس کی مقام بشر نہیں آیا
شفیق اعظمی