سلونی شام کے آنگن میں جب دو وقت ملتے ہیں
بھٹکتے ہم سے ان سایوں میں کچھ آدھے ادھورے ہیں
سمندر ہے ہمارے سامنے مغرور و خود سر سا
ہمیں اک پل بنا کر فاصلے سب پار کرنے ہیں
اندھیروں سے اجالوں تک اجالوں سے اندھیروں تک
سدا گردش ہی گردش ہے کہاں جانے وہ پہنچے ہیں
زمیں کے پھول سونے اور چاندی سے نہیں کھلتے
کسی محنت کی خوشبو سے سبھی آنچل مہکتے ہیں
وہی ہیں سانپ وشکنیا کو ڈس کر پالنے والے
مری نگری کو رہ رہ کر وہ اب بھی زہر دیتے ہیں
ہر اک احساس کی پہچان خط و خال کھو بیٹھی
وہ اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے گم سم سے رہتے ہیں
غزل
سلونی شام کے آنگن میں جب دو وقت ملتے ہیں
دیپک قمر