EN हिंदी
سلونی شام کے آنگن میں جب دو وقت ملتے ہیں | شیح شیری
saloni sham ke aangan mein jab do waqt milte hain

غزل

سلونی شام کے آنگن میں جب دو وقت ملتے ہیں

دیپک قمر

;

سلونی شام کے آنگن میں جب دو وقت ملتے ہیں
بھٹکتے ہم سے ان سایوں میں کچھ آدھے ادھورے ہیں

سمندر ہے ہمارے سامنے مغرور و خود سر سا
ہمیں اک پل بنا کر فاصلے سب پار کرنے ہیں

اندھیروں سے اجالوں تک اجالوں سے اندھیروں تک
سدا گردش ہی گردش ہے کہاں جانے وہ پہنچے ہیں

زمیں کے پھول سونے اور چاندی سے نہیں کھلتے
کسی محنت کی خوشبو سے سبھی آنچل مہکتے ہیں

وہی ہیں سانپ وشکنیا کو ڈس کر پالنے والے
مری نگری کو رہ رہ کر وہ اب بھی زہر دیتے ہیں

ہر اک احساس کی پہچان خط و خال کھو بیٹھی
وہ اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے گم سم سے رہتے ہیں