EN हिंदी
صلیب لاد کے کاندھے پہ چل رہا ہوں میں | شیح شیری
salib lad ke kandhe pe chal raha hun main

غزل

صلیب لاد کے کاندھے پہ چل رہا ہوں میں

ستیہ نند جاوا

;

صلیب لاد کے کاندھے پہ چل رہا ہوں میں
حصار ذات سے باہر نکل رہا ہوں میں

حیات ڈھونڈھتی پھرتی ہے مجھ کو سر گرداں
ادھورا جسم لیے رخ بدل رہا ہوں میں

بنا دیا ہے زمانے نے مجھ کو پتھر سا
کہ ضرب تیشہ سے آتش اگل رہا ہوں میں

مری نگاہ میں دنیا چتا کی راکھ سی ہے
اسی خیال کے شعلوں میں جل رہا ہوں میں

بلا رہی ہے مجھے اپنے گھر کی ویرانی
میان شور سلاسل مچل رہا ہوں میں

زمانہ ڈھونڈے گا مجھ کو در صدف کی طرح
کہ بوند بوند سمندر میں ڈھل رہا ہوں میں