صلیب لاد کے کاندھے پہ چل رہا ہوں میں
حصار ذات سے باہر نکل رہا ہوں میں
حیات ڈھونڈھتی پھرتی ہے مجھ کو سر گرداں
ادھورا جسم لیے رخ بدل رہا ہوں میں
بنا دیا ہے زمانے نے مجھ کو پتھر سا
کہ ضرب تیشہ سے آتش اگل رہا ہوں میں
مری نگاہ میں دنیا چتا کی راکھ سی ہے
اسی خیال کے شعلوں میں جل رہا ہوں میں
بلا رہی ہے مجھے اپنے گھر کی ویرانی
میان شور سلاسل مچل رہا ہوں میں
زمانہ ڈھونڈے گا مجھ کو در صدف کی طرح
کہ بوند بوند سمندر میں ڈھل رہا ہوں میں

غزل
صلیب لاد کے کاندھے پہ چل رہا ہوں میں
ستیہ نند جاوا