سجدۂ یاد میں سر اپنا جھکایا ہوا ہے
ہم نے عشاق کے رتبے کو بڑھایا ہوا ہے
تہمتیں ہوں یا کہ پتھر ہوں مقدر اس کا
ایک دیوانہ ترے شہر میں آیا ہوا ہے
میرا مقصد تھا فقط خاک اڑانا صاحب
اس لیے دشت کو گھر بار بنایا ہوا ہے
شوکت مجلس ہجراں کو بڑھانا تھا سو یار
میں نے پلکوں پہ ترا ہجر سجایا ہوا ہے
اک پری زاد ہے دھڑکن کے علاقے میں مقیم
جس نے ماحول کو پر وجد بنایا ہوا ہے
پاؤں میں ڈال کے تجھ نام کے گھنگرو ہم نے
اپنے اندر ہی میاں رقص رچایا ہوا ہے
یار کی صحبت پر فیض کی برکت نے سعیدؔ
اس زمانے میں مرا کام چلایا ہوا ہے
غزل
سجدۂ یاد میں سر اپنا جھکایا ہوا ہے
مبشر سعید