EN हिंदी
سجدۂ یاد میں سر اپنا جھکایا ہوا ہے | شیح شیری
sajda-e-yaad mein sar apna jhukaya hua hai

غزل

سجدۂ یاد میں سر اپنا جھکایا ہوا ہے

مبشر سعید

;

سجدۂ یاد میں سر اپنا جھکایا ہوا ہے
ہم نے عشاق کے رتبے کو بڑھایا ہوا ہے

تہمتیں ہوں یا کہ پتھر ہوں مقدر اس کا
ایک دیوانہ ترے شہر میں آیا ہوا ہے

میرا مقصد تھا فقط خاک اڑانا صاحب
اس لیے دشت کو گھر بار بنایا ہوا ہے

شوکت مجلس ہجراں کو بڑھانا تھا سو یار
میں نے پلکوں پہ ترا ہجر سجایا ہوا ہے

اک پری زاد ہے دھڑکن کے علاقے میں مقیم
جس نے ماحول کو پر وجد بنایا ہوا ہے

پاؤں میں ڈال کے تجھ نام کے گھنگرو ہم نے
اپنے اندر ہی میاں رقص رچایا ہوا ہے

یار کی صحبت پر فیض کی برکت نے سعیدؔ
اس زمانے میں مرا کام چلایا ہوا ہے