سیر اس سبزۂ عارض کی ہے دشوار بہت
اے دل آبلہ پا راہ میں ہیں خار بہت
لو نہ لو دل مجھے بھاتی نہیں تکرار بہت
مفت بکتا ہے مرا مال خریدار بہت
خوش رہو یار اگر ہم سے ہو بیزار بہت
دل اگر اپنا سلامت ہے تو دل دار بہت
غم نہیں گو ہم اکیلے ہیں اور اغیار بہت
حق اگر اپنی طرف ہے تو طرف دار بہت
پاؤں پھیلاؤ نہ اب تو مرے پاس آنے میں
ایڑیاں تم نے رگڑوائی ہیں اے یار بہت
کیا کروں گا میں بھلا باغ اجارے لے کر
آشیانوں کو ہیں اک مشت خس و خار بہت
طعن رندوں پہ نہ کر شیخ خدا لگتی بول
اس کے الطاف بہت ہیں کہ گنہ گار بہت
کیا زمانے میں محبت کا مرض پھیلا ہے
اچھے دو چار نظر آتے ہیں بیمار بہت
لمبے لمبے ترے بالوں کا مجھے سودا ہے
طول کھینچے گا مری جان یہ آزار بہت
تلخیٔ مرگ کا ہرگز مجھے اندیشہ نہیں
بیٹھی منہ پر ہے مرے یار کی تلوار بہت
بس تمہاری یہی خو سخت بری لگتی ہے
تھوڑی تقصیر پہ ہو جاتے ہو بیزار بہت
گھر میں اس بت کے رسائی نہ ہوئی پر نہ ہوئی
بحرؔ نے پتلی بھی گاڑی پس دیوار بہت
غزل
سیر اس سبزۂ عارض کی ہے دشوار بہت
امداد علی بحر