سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تیر کا
سب کھلا باغ جہاں الا یہ حیران و خفا
جس کو دل سمجھے تھے ہم سو غنچہ تھا تصویر کا
بوئے خوں سے جی رکا جاتا ہے اے باد بہار
ہو گیا ہے چاک دل شاید کسو دلگیر کا
کیونکے نقاش ازل نے نقش ابرو کا کیا
کام ہے اک تیرے منہ پر کھینچنا شمشیر کا
رہ گزر سیل حوادث کا ہے بے بنیاد دہر
اس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کا
بس طبیب اٹھ جا مری بالیں سے مت دے درد سر
کام یاں آخر ہوا اب فائدہ تدبیر کا
نالہ کش ہیں عہد پیری میں بھی تیرے در پہ ہم
قد خم گشتہ ہمارا حلقہ ہے زنجیر کا
جو ترے کوچے میں آیا پھر وہیں گاڑا اسے
تشنۂ خوں میں تو ہوں اس خاک دامن گیر کا
خون سے میرے ہوئی یک دم خوشی تم کو تو لیک
مفت میں جاتا رہا جی ایک بے تقصیر کا
لخت دل سے جوں چھڑی پھولوں کی گوندھی ہے ولے
فائدہ کچھ اے جگر اس آہ بے تاثیر کا
گور مجنوں سے نہ جاویں گے کہیں ہم بے نوا
عیب ہے ہم میں جو چھوڑیں ڈھیر اپنے پیر کا
کس طرح سے مانیے یارو کہ یہ عاشق نہیں
رنگ اڑا جاتا ہے ٹک چہرہ تو دیکھو میرؔ کا
غزل
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
میر تقی میر