سیلابوں کے بعد ہم ایسے دیوانے ہو جاتے ہیں
اپنے گھر سے اس کے گھر تک پہروں دوڑ لگاتے ہیں
ہم نے اپنے ہاتھ زمیں میں داب رکھے ہیں اس ڈر سے
دست طلب پھیلانے والے دیوانے کہلاتے ہیں
ان آنکھوں کی سیوا کر کے ہم نے جادو سیکھ لیا
جب بھی طبیعت گھبراتی ہے پتھر کے ہو جاتے ہیں
اپنے ہجر کی بات الگ ہے اپنا عشق مسلسل ہے
خود سے بچھڑنے لگتے ہیں تو اس کے گھر ہو آتے ہیں
آدھی رات کو ہستی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے
بام و در کے سناٹے جب آپس میں ٹکراتے ہیں
جانے کتنی گرد جمی ہو خد و خال پہ رستوں کی
اس ڈر سے ہم اپنے گھر میں دستک دے کر جاتے ہیں
اب اس پر الزام رکھے یہ خلق خدا تو کیا کہیے
ہم تو اس کی باتیں کر کے اپنا دل بہلاتے ہیں
جس دن اس کی یاد آتی ہے جیت سی اپنی ہوتی ہے
رستہ رستہ کوچہ کوچہ پرچم سے لہراتے ہیں
پہلے پروائی سے دل میں ایک کسک سی اٹھتی تھی
اب یہ موسم کچھ نہیں کرتے لیکن خواب دکھاتے ہیں
میں نے اپنے جوش میں آ کر رقص کیا تھا خود محسنؔ
لیکن میری بستی والے اس کا نام بتاتے ہیں
غزل
سیلابوں کے بعد ہم ایسے دیوانے ہو جاتے ہیں
محسن اسرار