EN हिंदी
صحراؤں کے دوست تھے ہم خود آرائی سے ختم ہوئے | شیح شیری
sahraon ke dost the hum KHud-arai se KHatm hue

غزل

صحراؤں کے دوست تھے ہم خود آرائی سے ختم ہوئے

ذوالفقار عادل

;

صحراؤں کے دوست تھے ہم خود آرائی سے ختم ہوئے
اوپر اوپر خاک اڑائی گہرائی سے ختم ہوئے

ویرانہ بھی ہم تھے خاموشی بھی ہم تھے دل بھی ہم
یکسوئی سے عشق کیا اور یکتائی سے ختم ہوئے

دریا دلدل پربت جنگل اندر تک آ پہنچے تھے
اسی بستی کے رہنے والے تنہائی سے ختم ہوئے

کتنی آنکھیں تھیں جو اپنی بینائی میں ڈوب گئیں
کتنے منظر تھے جو اپنی پہنائی سے ختم ہوئے

عادلؔ اس رہداری سے وابستہ کچھ گلدستے تھے
رک رک کر بڑھنے والوں کی پسپائی سے ختم ہوئے