صحرا سے بھی ویراں مرا گھر ہے کہ نہیں ہے
اس طرح سے جینا بھی ہنر ہے کہ نہیں ہے
یہ دنیا بسائی ہے جو اک بے خبری کی
اس میں کہیں یادوں کا گزر ہے کہ نہیں ہے
ہے جسم کے زنداں میں وہی روح کی فریاد
اس کرب مسلسل سے مفر ہے کہ نہیں ہے
دیوار کے سائے نے تمہیں روک لیا تھا
اب ہمت ایمائے سفر ہے کہ نہیں ہے
جس کے لئے بے خواب رہا کرتی ہیں آنکھیں
وہ آنکھ بھی آشفتہ مگر ہے کہ نہیں ہے
ہم شعلۂ جاں تیز ہواؤں سے بچا کر
زندہ ہیں مگر اس کو خبر ہے کہ نہیں ہے
اب کون رہا ہے جو ہمیں اتنی خبر دے
جو حال ادھر ہے وہ ادھر ہے کہ نہیں ہے
غزل
صحرا سے بھی ویراں مرا گھر ہے کہ نہیں ہے
آصف جمال