صحرا میں ذرہ قطرہ سمندر میں جا ملا
میں خاک میں ملا تو ملا تجھ کو کیا ملا
تعمیر دوزخوں میں ہو شداد کی بہشت
جنت کو چھوڑ آئے تو غم دوسرا ملا
یہ تو نہیں کہ خواب میں دنیا بدل گئی
بیدار جب ہوئے تو تصور نیا ملا
کیا کم ہیں اب بھی شہر میں بے مغز و بے لباس
سودا تھا ایک سر میں وہ تن سے جدا ملا
بیچارگی و خواری و درماندگی کے بیچ
مہتاب ہنس رہا تھا گلے ہم سے آ ملا
اک جست میں تو کوئی نہ پہنچا کمال تک
اک عمر سر کھپا کے ہی جو کچھ ملا ملا

غزل
صحرا میں ذرہ قطرہ سمندر میں جا ملا
سعید الظفر چغتائی