EN हिंदी
صحرا میں ذرہ قطرہ سمندر میں جا ملا | شیح شیری
sahra mein zarra qatra samundar mein ja mila

غزل

صحرا میں ذرہ قطرہ سمندر میں جا ملا

سعید الظفر چغتائی

;

صحرا میں ذرہ قطرہ سمندر میں جا ملا
میں خاک میں ملا تو ملا تجھ کو کیا ملا

تعمیر دوزخوں میں ہو شداد کی بہشت
جنت کو چھوڑ آئے تو غم دوسرا ملا

یہ تو نہیں کہ خواب میں دنیا بدل گئی
بیدار جب ہوئے تو تصور نیا ملا

کیا کم ہیں اب بھی شہر میں بے‌ مغز و بے لباس
سودا تھا ایک سر میں وہ تن سے جدا ملا

بیچارگی و خواری و درماندگی کے بیچ
مہتاب ہنس رہا تھا گلے ہم سے آ ملا

اک جست میں تو کوئی نہ پہنچا کمال تک
اک عمر سر کھپا کے ہی جو کچھ ملا ملا