EN हिंदी
صحرا کوئی بستی کوئی دریا ہے کہ تم ہو | شیح شیری
sahra koi basti koi dariya hai ki tum ho

غزل

صحرا کوئی بستی کوئی دریا ہے کہ تم ہو

سرفراز خالد

;

صحرا کوئی بستی کوئی دریا ہے کہ تم ہو
سب کچھ مری نظروں کا تماشا ہے کہ تم ہو

لوٹ آئے ہیں صحرا سے سبھی لوٹنے والے
اس بار مرے شہر میں اچھا ہے کہ تم ہو

تم ہو کہ مرے لب پہ دعا رہتی ہے کوئی
آنکھوں نے کوئی خواب سا دیکھا ہے کہ تم ہو

جب بھی کوئی دیتا ہے در خواب پہ دستک
میں سوچنے لگتا ہوں کہ دنیا ہے کہ تم ہو

یہ عشق کا جلتا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں
یہ حسن کا بہتا ہوا دریا ہے کہ تم ہو