صحرا کوئی بستی کوئی دریا ہے کہ تم ہو
سب کچھ مری نظروں کا تماشا ہے کہ تم ہو
لوٹ آئے ہیں صحرا سے سبھی لوٹنے والے
اس بار مرے شہر میں اچھا ہے کہ تم ہو
تم ہو کہ مرے لب پہ دعا رہتی ہے کوئی
آنکھوں نے کوئی خواب سا دیکھا ہے کہ تم ہو
جب بھی کوئی دیتا ہے در خواب پہ دستک
میں سوچنے لگتا ہوں کہ دنیا ہے کہ تم ہو
یہ عشق کا جلتا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں
یہ حسن کا بہتا ہوا دریا ہے کہ تم ہو
غزل
صحرا کوئی بستی کوئی دریا ہے کہ تم ہو
سرفراز خالد