EN हिंदी
صہبائے نظر کے اس چھلکانے کو کیا کہئے | شیح شیری
sahba-e-nazar ke is chhalkane ko kya kahiye

غزل

صہبائے نظر کے اس چھلکانے کو کیا کہئے

للن چودھری

;

صہبائے نظر کے اس چھلکانے کو کیا کہئے
اس شوخ کی آنکھوں کے پیمانے کو کیا کہئے

یوں برق نے پھونکا ہے سب خاک ہوئے سپنے
برباد نشیمن کے افسانے کو کیا کہئے

دے کر غم دل اب وہ بیمار محبت کو
سمجھاتے ہیں ان کے اس سمجھانے کو کیا کہئے

یہ سوز محبت ہے جب شمع ہوئی روشن
جل جاتا ہے چپکے سے پروانے کو کیا کہئے

بیٹھا ہے ابھی آ کر اٹھ کر ابھی چل دے گا
دیوانہ ہے دیوانہ دیوانے کو کیا کہئے

ہاتھوں میں لئے پتھر پھرتے ہیں مرے پیچھے
اپنوں کی یہ حالت ہے بیگانے کو کیا کہئے

رونا مجھے آتا ہے حالت پہ تری آفتؔ
گھر کی جو یہ صورت ہے ویرانے کو کیا کہئے