سحر نے سانس لی سورج چمکنے والا تھا
دیا ہواؤں کی زد میں تھا بجھنے والا تھا
خبر ملی کہ مرے واسطے تو صحرا ہے
میں تیری یاد کے دریا میں بہنے والا تھا
درخت گھونسلے کھانے لگے پرندوں کے
میں ڈر رہا تھا شجر پہ جو رہنے والا تھا
مری طرح کا کوئی بھی نہیں تھا بستی میں
بقول یاراں میں جنگل میں رہنے والا تھا
شب سیاہ گزرتے ہی چاند کہنے لگا
اگر یہ اب بھی نہ کٹتی میں جلنے والا تھا
غزل
سحر نے سانس لی سورج چمکنے والا تھا
شہزاد حسین سائل