EN हिंदी
سحر نا آشنا کوئی نہیں ہے | شیح شیری
sahar-na-ashna koi nahin hai

غزل

سحر نا آشنا کوئی نہیں ہے

حامدی کاشمیری

;

سحر نا آشنا کوئی نہیں ہے
مگر اب جاگتا کوئی نہیں ہے

پیامی بن کے آتے تھے پرندے
مگر اب رابطہ کوئی نہیں ہے

شکستہ پا نہیں ہیں ہم درختو
کریں کیا راستہ کوئی نہیں ہے

کوئی لوٹا نہیں گھر سے نکل کر
مگر یہ سوچتا کوئی نہیں ہے

بہا لو تم ہی اپنے ساتھ موجو
ہمارا آسرا کوئی نہیں ہے

ہم اس کی کھوج میں نکلے ہوئے ہیں
ہمیں اپنا پتہ کوئی نہیں ہے