سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا
ہیولیٰ کہر کے اندر چھپا تھا
مکاں جسموں کی خوشبو سے تھا خالی
مگر سایوں سے آنگن بھر گیا تھا
جلی حدت سے نم آلود مٹی
کوئی سورج زمیں میں دھنس گیا تھا
خموشی کی گھٹن سے چیخ اٹھا
مرا گنبد بھی صحرا کی صدا تھا
ابھر آئی تھی دریاؤں میں خشکی
مگر ڈھلوان پر پانی کھڑا تھا
اڑا تھا میں ہواؤں کے سہارے
رکی آندھی تو نیچے گر پڑا تھا
بھیانک تھا مرے اندر کا انساں
میں اس کو دیکھ کر کتنا ڈرا تھا
لہو صدیقؔ اب تک بہہ رہا ہے
کبھی اک پھول ماتھے پر لگا تھا

غزل
سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا
صدیق افغانی