سہ پہر ہی سے کوئی شکل بناتی ہے یہ شام
خود جو روتی ہے مجھے بھی تو رلاتی ہے یہ شام
جو بھی دیوار اٹھاتی ہے گراتی ہے یہ شام
شام کے وقت بہت دھول اڑاتی ہے یہ شام
ٹھہری ٹھہری سی تھکی ہاری مصیبت میں گھری
ایسا لگتا ہے کہیں دور سے آتی ہے یہ شام
ایک بے نام سی الجھن کی طرح پھرتی ہے
شہر سے روز مضافات کو جاتی ہے یہ شام
گھونسلے ہیں نہ گھروندے کوئی کٹیا نہ چراغ
دیکھیے آج کہاں خیر مناتی ہے یہ شام
دوسروں ہی کے حوالے سے ملا کرتی ہے
اور دکھڑا کوئی روزانہ سناتی ہے یہ شام
اس کی پلکوں پہ ستاروں کا سفر روشن ہے
گھپ اندھیرے میں مجھے راہ دکھاتی ہے یہ شام

غزل
سہ پہر ہی سے کوئی شکل بناتی ہے یہ شام
شاہد لطیف