سفیر فن تھے سو تصویر کر دئیے گئے ہم
پھر ایک خواب سے تعبیر کر دئیے گئے ہم
ہم اک خیال تھے فردوس ہم خیالاں کا
سو اک خرابے میں تعمیر کر دیئے گئے ہم
سوالیان سیہ بخت کی طرح تہ تیغ
بنام عدل جہانگیر کر دیئے گئے ہم
شہید کر کے بھی موسم نے کب رہائی دی
شجر کی شاخ میں زنجیر کر دیئے گئے ہم
ہم اس سے پہلے بھی اک داستاں تھے اور اب تو
صلیب و دار پہ تحریر کر دیئے گئے ہم
خدنگ ظلم وہ برسے کہ خود بھی آخر کار
نگاہ ظلم میں شمشیر کر دیئے گئے ہم
یہ رمز نکتہ وری ہے کہ طور حیلہ گری
رہین لذت تقدیر کر دیئے گئے ہم
مٹے ہم اپنی زمیں پر تو کیا مقام ملا
یہی کہ دفن بہ توقیر کر دیئے گئے ہم
غزل
سفیر فن تھے سو تصویر کر دئیے گئے ہم
محشر بدایونی

