EN हिंदी
سفینہ وہ کبھی شایان ساحل ہو نہیں سکتا | شیح شیری
safina wo kabhi shayan-e-sahil ho nahin sakta

غزل

سفینہ وہ کبھی شایان ساحل ہو نہیں سکتا

شمیم جے پوری

;

سفینہ وہ کبھی شایان ساحل ہو نہیں سکتا
جو ہر طوفاں سے ٹکرانے کے قابل ہو نہیں سکتا

گزر جائے جو آداب جنوں سے تیری محفل میں
وہ دیوانہ تری محفل کے قابل ہو نہیں سکتا

حوادث کے تھپیڑوں سے الجھ طوفاں سے ٹکرا جا
کہ غم جب تک نہ ہو انسان کامل ہو نہیں سکتا

مجھے طغیانیوں سے کھیلنا آتا ہے ہنس ہنس کر
مرا عزم جواں ممنون ساحل ہو نہیں سکتا

شمیمؔ اس دور کا یہ سنگ دل انساں ارے توبہ
کہ جس سے احترام شیشۂ دل ہو نہیں سکتا