سفینہ ڈگمگانے لگ گیا ہے
کوئی رستہ دکھانے لگ گیا ہے
مراسم ختم ہوتا ہی سمجھئے
وہ کچھ نزدیک آنے لگ گیا ہے
تیرے غم نے بڑی چارہ گری کی
ہمارا غم ٹھکانے لگ گیا ہے
لہر دہلیز پر آئی ہے جب سے
سمندر خوف کھانے لگ گیا ہے
بہت دن ہو گئے بچھڑے ہوئے اب
مجھے وو یاد آنے لگ گیا ہے
سفر تاریکیوں کا کر رہی ہوں
اجالا بوکھلانے لگ گیا ہے
یہ کوئی معجزہ ہے ہجر کا ہی
تو مجھ میں بڑبڑانے لگ گیا ہے

غزل
سفینہ ڈگمگانے لگ گیا ہے
پونم یادو