EN हिंदी
سفر یہ میرا عجب امتحان چاہتا ہے | شیح شیری
safar ye mera ajab imtihan chahta hai

غزل

سفر یہ میرا عجب امتحان چاہتا ہے

رئیس الدین رئیس

;

سفر یہ میرا عجب امتحان چاہتا ہے
بلا کے حبس میں بھی بادبان چاہتا ہے

وہ میرا دل نہیں میری زبان چاہتا ہے
مرا عدو ہے مجھی سے امان چاہتا ہے

ہزار اس کو وہی راستے بلاتے ہیں
قدم قدم وہ نیا آسمان چاہتا ہے

عجیب بات ہے مجھ سے مرا ہی آئینہ
مری شناخت کا کوئی نشان چاہتا ہے

میں خوش ہوں آج کہ میری انا کا سورج بھی
مرے ہی جسم کا اب سائبان چاہتا ہے

میں اس کی بات کی تردید کر تو دوں لیکن
مگر وہ شخص تو مجھ سے زبان چاہتا ہے