سفر سے لوٹ جانا چاہتا ہے
پرندہ آشیانہ چاہتا ہے
کوئی اسکول کی گھنٹی بجا دے
یہ بچہ مسکرانا چاہتا ہے
اسے رشتے تھما دیتی ہے دنیا
جو دو پیسے کمانا چاہتا ہے
یہاں سانسوں کے لالے پڑ رہے ہیں
وہ پاگل زہر کھانا چاہتا ہے
جسے بھی ڈوبنا ہو ڈوب جائے
سمندر سوکھ جانا چاہتا ہے
ہمارا حق دبا رکھا ہے جس نے
سنا ہے حج کو جانا چاہتا ہے
غزل
سفر سے لوٹ جانا چاہتا ہے
شکیل جمالی