سفر سے کس کو مفر ہے لیکن یہ کیا کہ بس ریگ زار آئیں
کہیں کوئی سائبان بھی دے کہ گرد وحشت اتار آئیں
یہ خشک سالی کہ مدتوں سے چمن میں آ کر پسر گئی ہے
کبھی تو نخل مراد جھومے کہیں تو کچھ برگ و بار آئیں
زمیں کہ گل پوش بھی رہی اور فلک پہ قوس قزح بھی جھومی
مزے مزے کی وہ ساعتیں تھیں چلو یہ دن بھی گزار آئیں
ادھر یہ دل ہے کہ اس کو بس اک جنوں کی دھن ہے جنوں کی دھن ہے
ادھر ہمارا یہ عزم پیہم کہ زلف گیتی سنوار آئیں
یہ سن کے دیکھیں کہ کوئی اپنوں کو کیسے آخر پکارتا ہے
چلو کہ اپنا ہی نام راشدؔ کسی کنویں میں پکار آئیں
غزل
سفر سے کس کو مفر ہے لیکن یہ کیا کہ بس ریگ زار آئیں
راشد جمال فاروقی