EN हिंदी
سفر سے کس کو مفر ہے لیکن یہ کیا کہ بس ریگ زار آئیں | شیح شیری
safar se kis ko mafar hai lekin ye kya ki bas reg-zar aaen

غزل

سفر سے کس کو مفر ہے لیکن یہ کیا کہ بس ریگ زار آئیں

راشد جمال فاروقی

;

سفر سے کس کو مفر ہے لیکن یہ کیا کہ بس ریگ زار آئیں
کہیں کوئی سائبان بھی دے کہ گرد وحشت اتار آئیں

یہ خشک سالی کہ مدتوں سے چمن میں آ کر پسر گئی ہے
کبھی تو نخل مراد جھومے کہیں تو کچھ برگ و بار آئیں

زمیں کہ گل پوش بھی رہی اور فلک پہ قوس قزح بھی جھومی
مزے مزے کی وہ ساعتیں تھیں چلو یہ دن بھی گزار آئیں

ادھر یہ دل ہے کہ اس کو بس اک جنوں کی دھن ہے جنوں کی دھن ہے
ادھر ہمارا یہ عزم پیہم کہ زلف گیتی سنوار آئیں

یہ سن کے دیکھیں کہ کوئی اپنوں کو کیسے آخر پکارتا ہے
چلو کہ اپنا ہی نام راشدؔ کسی کنویں میں پکار آئیں